اسلام کی حکمت ِ تعلیم و تربیت سورۂ لقمان کی روشنی میں
اسلام کی حکمت ِ تعلیم و تربیت سورۂ لقمان کی روشنی میں
پورا قرآن نصیحت ہے‘ پورا قرآن انسان کی تعلیم و تربیت کے لیے ہے اور پورے قرآن میں وہ اصول‘ مقاصد اور خطوطِ کار پھیلے ہوئے ہیں جن پر اسلامی معاشرے کا نظامِ تعلیم استوار ہونا چاہیے اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اسلامی ریاست میںقرآن کے منشا کے مطابق بچوں‘ بالغوں‘ عورتوں اور قائدین ِعوام کی تعلیم و تربیت کا جو ہمہ گیر نظام عملاً نافذ کیا اور عوام کی ذہنی و اخلاقی تعمیر کے لیے جن ادارات کے نقوشِ اوّلین قائم کیے‘ اس پورے کام کو___ قرآن کے نکات کی اس جامع عملی توضیح و تفسیر کو___ زیرغور لائے بغیر اسلام کی حکمتِ تعلیم کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس حکمت کے مطابق کوئی تعلیمی منصوبہ عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ قرآن‘ اسوۂ رسالت اور قرآن کے مطابق برسرِعمل آنے والے نظام کا تفصیلی و تحقیقی جائزہ لے کر اسلامی حکمتِ تعلیم کو قلم بند کرنے کے لیے تو بڑا وقت درکار ہے۔ فی الوقت پیشِ نظر یہ ہے کہ ہم اسلامی حکمتِ تعلیم کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔
قرآن میں زندگی کے جو حقائق مذکور ہیں وہ ایک طرف تو پورے قرآن میں پھیلے ہوئے ملتے ہیں اور دوسری طرف بعض خاص مقامات ایسے ملتے ہیں جہاں کسی ایک حقیقت کو اجمال اور جامعیت سے یک جا بیان کردیا جاتاہے۔ حکمتِ تعلیم و تربیت کی کاوش میں پڑ کر جب ہم قرآن کھولتے ہیں تو سورۂ لقمان ہم سے خصوصی توجہ کا خراج وصول کرتی ہے۔ سورئہ لقمان تمام تر نصیحت ہے اور ازاوّل تا آخر حکمتِ تعلیم و تربیت کی آئینہ دار! اسی سورہ کے مطالب پر ہم اپنے تعلیمی تصورات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے فلسفۂ تعلیم کی سورہ ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ گھروں میں ہم اولادوں کو کس نقشے پر اٹھائیں‘ درس گاہوں کا نظام کن بنیادوں پر کھڑا کریں‘ اور کس ذہن و کردار کا انسان اپنے ہاں تعمیر کریں۔
اسلام کا انسانِ مطلوب
آئیے! سب سے پہلے ہم اس سورہ کے آئینے میں اسلام کے انسانِ مطلوب کی ایک جھلک دیکھیں۔ سورہ کے دیباچے ہی میں انسانیت کے اس بہترین کردار کا ذکر موجود ہے جسے ظہور دینے کے لیے الہامی حکمت تقاضا کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں اور ان آیات میں جو ہدایت و رہنمائی ہے اور اس ہدایت و رہنمائی میں جو رحمت مضمر ہے وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو احسان کیش ہوں۔ قرآن کا نظامِ فکروعمل صرف محسنین کے ذریعے چل سکتا ہے اور یہ نظام اسی طرز کے قائدین و کارکن مانگتا ہے (لقمان ۳۱: ۱-۳)۔ ان کے نقشۂ زندگی کے چند اہم آثار بھی بیان کر دیے کہ:
وہ نماز قائم کرنے والے ہوں‘ وہ زکوٰۃ دینے والے ہوں‘ وہ آخرت کو پیش نظر رکھنے والے ہوں۔(۳۱:۴)
بیان کی نوعیت احاطہ و احصار کی نہیں بلکہ مدّعا یہ ہے کہ ان ناگزیر اوصاف کے بغیر احسان کیش کردار پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے رب کے دیے ہوئے نظامِ ہدایت پر چل سکتے ہیں اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (۳۱:۵)
واضح رہے کہ محسن یا احسان کیش کا مفہوم اسلامی اصطلاح میں یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر خیال‘ عمل اور سرگرمی میں حُسن و خوبی پیدا کرنے کا اہتمام کرے اور اپنی ساری کی ساری داستان حُسنِ اعتقاد اور حُسنِ کردار سے آراستہ کرے۔ پھر بات انفرادی اور نجی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہمارا پورے کا پورا تمدنی نظام‘ اس کے سارے شعبے اور ادارے اور ہماری جملہ اجتماعی سرگرمیاں حسین ترین پیرایہ رکھتی ہیں۔ یعنی اسلام حُسنِ فکر اور حُسنِ عمل کا ایک مکمل نظام مانگتا ہے۔ وہی چیز جسے دوسری جگہ حیاتِ طیبہ کہا گیاہے۔ ایسے انسانی کردار اور ایسے نظامِ تمدّن کے ذریعے ہی انسان کو فلاح حاصل ہوتی ہے۔ زندگی اپنے تقاضوں کوصحیح طور سے پورا کرتی ہے اور انسانیت اپنے فطری مقاصد تک پہنچتی ہے۔ فلاح! اس دنیا میں بھی اور فلاح آخرت میں بھی۔ اس دنیا میں ’حیاتِ طیبہ‘ کا حصول بجاے خود فلاح کی آخری شکل ہے اور یہی حیاتِ طیبہ اُخروی فلاح کی ضامن ہوتی ہے۔ گویا ہمارے نظامِ تعلیم کا منتہا ایسے احسان کیش کرداروں کی تشکیل ہے جو نماز‘ زکوٰۃ اور فکرِ آخرت کے اوصاف کو بنیاد بناکر حیاتِ طیبہ پیدا کریں اور اپنی ذات سے لے کر بڑے بڑے تمدّنی ادارات تک ساری زندگی کو سنوار دیں۔
مقابل کا فاسد کردار
قرآن کا اسلوب بالعمُوم اضداد کو متقابلا ًدکھانے کا ہے۔ اب جہاں انسانِ مطلوب کا نقشہ بیان ہوا‘ وہاں نامطلوب کردار کی بھی ایک جھلک دکھانی لازم تھی۔ مطلوب کردار تو وہ ہے جو مسلکِ احسان کا متلاشی ہے‘ جو حیاتِ طیبہ کے حصول کے لیے مضطرب رہتا ہے‘ جو ہدایت ِرب کو جاننا چاہتا ہے‘ جو اس کی آیات کی روشنی کا پیاسا ہے جو فلاح کی جستجو میں ہے‘اور جس کے سامنے فوری مزے اور چسکے ہی نہیں ہیں بلکہ آخرت کے نتائج بھی ہیں۔
لیکن مقابل کا کردار وہ ہے جو ’لھو الحدیث‘ کا شائق ہے۔ بے مقصد اور لاحاصل قسم کے قصّے کہانیوں سے اسے رغبت ہوتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں اور اس کے مسائل سے بھاگ کر یاوہ گوئی میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اتنا ہی نہیں کہ خود پناہ ڈھونڈتا ہو بلکہ وہ تفریحی ادب کے افسوں کو کام میں لاکر دوسروں کو بھی خدا کی راہ سے ہٹا لے جانا چاہتا ہے۔ درآنحالیکہ اس کے پلّے کچھ بھی علمِ حقیقت نہیں ہوتا۔ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ خدا کی راہ اور خدا کی ہدایت کا مذاق اڑاتا ہے‘ وہ عظیم اور اٹل حقائق کو تمسخر میں اڑا دینا چاہتا ہے (۳۱: ۶)۔ اس کے سامنے جب اللہ کی کتابِ حکیم کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اپنے نشۂ پندار میں بہک کر اُن سے اس طرح روگردانی کرتا ہے گویا کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں‘ گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ (۳۱: ۷)
ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کی حکمت متعین کرتے ہوئے خوب صراحت سے طے کر لینا چاہیے کہ ہمیں اپنے ہاں اس طرز کے کردار کو پروان نہیں چڑھنے دینا ہے۔ خصوصاً علوم میں‘ ادب میں اور فنونِ لطیفہ میں ہمیں ان رجحانات کو نشوونما نہیں دینی جن کا ماحصل لھو الحدیث ہو اور جن کی وجہ سے لھوالحدیث کا ذوق بڑھے۔وہ تمام فضولیات جو فراریت پسندوں کی پناہ گاہ ہوں‘ جو راہِ حق سے ہٹانے والی ہوں‘ جو آیاتِ الٰہی کے لیے کانوں کو بہرہ کردیں‘ جو خدا کے سامنے عبدیت کے بجاے اِستکبار کے مقام پر کھڑا کریں اور جن کی وجہ سے دلوں میں خدائی ہدایت کی تضحیک کا میلان پیدا ہو۔
عُروۃ الوثقٰی
اپنے محدود علمِ قرآن کی روشنی میں میری ناقص راے یہ ہے کہ سورئہ لقمان کی آیت ۲۲ مرکزی اہمیت رکھتی ہے اور یہی روحِ کلام ہے۔ پڑھیے:
اور جس نے اللہ کی بارگاہ میں اپنا سرِتسلیم خم کردیا اور وہ احسان کیش بن گیا تو بس اُس نے ایک مضبوط رشتے کو تھام لیا… الخ
یہاں پھر ’محسن‘ کی شان سامنے آتی ہے۔ کوئی شخص احسان کیش نہیں ہوسکتا اور زندگی کو حُسن و خوبی سے مالا مال نہیں کرسکتا جو اللہ کے وجود کی عظیم صداقت کو نہ تسلیم کرے اور اس کا حاکمانہ مقام پہچان کر اپنی باگ ڈور اس کے حوالے نہ کردے۔ خدا سے یہ تعلق وہ مضبوط ترین رشتہ ہے جسے تھام لینے کے بعد زندگی تباہ کن ٹھوکروں سے بچ جاتی ہے‘ خیالات کی آوارگی و پریشانی‘ جذبات کی بے راہ روی اور اعمال کی بے ربطی کا پوری طرح ازالہ ہوجاتا ہے۔ حقیقت کے اس مرکزی نکتے کے گرد فرد کی ساری قوتیں اور تمدّن کی جملہ سرگرمیاں منظم و مرتب ہوجاتی ہیں اور نظم و ترتیب کے فقدان میں کوئی حُسن نہیں پیدا ہوسکتا۔
ایک صحیح نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ انسانیت کو اس عُروۃ الوثقیٰٰ تک لائے اور خدا پرستی کے رشتۂ محکم کو تھامنے کی صلاحیت دے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کی یہ اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ بندوں کو خدا کے سامنے سرِتسلیم پوری طرح خم کر دینا اور خم کیے رکھنا سکھائے۔ یہ حالت اس اِستکبار کی عین ضد ہے جو آیت ۶ میں بیان ہوا ہے۔
سورہ کی تمہید کے ساتھ مرکزی روحِ کلام کی آئینہ دار آیت کو ملا کر آپ دیکھ چکے۔ آیئے! اب اس مربوط ٹکڑے کو لیں جس میں چند اہم نکات تسلسل سے بیان ہوئے ہیں۔ اس ٹکڑے میں حضرت لقمان اپنے صاحبزادے کو ___بلکہ یوں کہیے کہ نئی نسل کو ___اساسیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہم ایک ایک نکتے کو الگ الگ لیتے ہیں۔
شکر کا مسلک
حضرت لقمان کو جو حکمت اللہ تعالیٰ نے دی تھی‘اور جس کے تحت وہ اپنے فرزند کو تلقین کرتے ہیں وہ ہے اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ (۳۱: ۱۲)‘یعنی خدا کا حق پہچانو‘ احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔ اسلام نے خدا کا جو تصور دلایا ہے وہ بنیادی طور سے ایک رحیم‘ شفیق اور ودود ہستی کا تصور ہے (رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ)۔ اس کا قہر و غضب اس کی صفتِ عدل کی وجہ سے ہے اور اس کی صفتِ عدل خود صفتِ رحمت ہی کی مظہرہے۔ چنانچہ قرآن کا ایک بڑا حصہ یہی احساس دلانے کے لیے وقف ہے کہ انسان پر خدا کے احسانات و انعامات کس درجہ وسیع ہیں۔ احسان اور رحمت کا حق یہ ہے کہ شکر کا رویہ پیدا ہو۔ ہمارے دین میں تعلق باللہ کی اساس فی الحقیقت جذبۂ شکر پر ہے۔ تقویٰ اور خشیت شکر کے ساتھ ایک لازمی پہلو کی حیثیت سے ہے۔ نعمت اور رحمت کا شعور جہاں شکر کا جذبہ اُبھارتا ہے وہاں اس کے چھن جانے کا اندیشہ بیم و خشیت بھی پیدا کرتا ہے۔
بندوں کے شکر کی خدا کو کوئی احتیاج نہیں کہ اس کے بغیر اس کے کام اٹکے جاتے ہوں۔ خدا کے سامنے شکر کی روش کا اختیار کرنا خود ہمارے اپنے احسان کیش بننے اور اپنی زندگی سنوارنے کے لیے ضروری ہے۔ جو شخص خدا کے اَن گنت احسانات سے استفادہ کرکے اس کی عنایات کا احساس نہیں کرتا۔ ایسا احسان فراموش زندگی کی صحیح تعمیر کے لیے پھر کوئی بنیاد بھی نہیں پاسکتا۔ اس لیے حق تعالیٰ نے فرما دیا کہ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرْ لِنَفْسِہٖ (۳۱: ۱۲) ‘جو کوئی خدا کا حق پہچانے گا اس کا یہ رویّۂ احسان شناسی خود اسی کی ذات کے لیے نفع بخش ہے۔ یہ بہرحال محسن بننے کے لیے نقطۂ آغاز جذبۂ شکرہے۔
شکر کی روش کی ضد کفر ہے۔ واضح کردیا گیا کہ جو کوئی شکر کی راہ کو چھوڑ کر کفر کی روش اختیار کرے تواس کا وبال بھی خود اسی کو بھگتنا ہے‘ اللہ تو غنی و حمید ہے اور اسے نہ کسی کے شکر کی احتیاج ہے‘ نہ کسی کے کفر سے کوئی اندیشہ۔
معلوم ہوا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کا کام یہ ہے کہ وہ ایک ایک فرد کو یہ پیغام دے کہ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ، خدا کا حق پہچانو اور احسان شناسی کی روش اختیار کرو۔
انعاماتِ الٰھی کا شعور
شکر کا جذبہ انعامات‘ احسانات اور عنایات کے شعور سے پیدا ہوتاہے۔ اس سورہ میں یہ شعور دلانے کا اہتمام بھی ہے۔ دعوت دی گئی ہے کہ بے شمار ظاہری اور باطنی نعمتیں تقاضا کرتی ہیں کہ ان پر غوروفکر کرو‘ فرمایا:
اس نے زمین و آسمان کو ستونوں کے بغیر کھڑا کیا جیسے کہ تم دیکھتے ہواور زمین پر ایسے بوجھ جما دیے کہ تمھیں لیے ہوئے (اپنی گردش میں) کسی طرف ڈھلک نہ جائے اور اس میں سب طرح کے جانور پھیلا دیے اور آسمان سے بارش برسانے کا نظم مقرر کیا اور پھر اس کے ذریعے سے نباتات کے نہایت ہی خوب خوب جوڑے ہر طرح کے اگائے۔ (۳۱: ۱۰)
کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ سب کچھ جو کچھ زمین وآسمان میں ہے‘ اسے اللہ نے نفع رسانی میں لگا رکھا ہے اور تم پر ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بوچھاڑ کردی ہے۔ (۳۱: ۲۰)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے پرو کر نکالتا ہے… الخ (۳۱:۲۹)
کیا تو نے غور نہیں کیا کہ سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ کشتی چلتی ہے (۳۱: ۳۱)…اور جب اس کے مسافروں کے سروں پر کوئی لہر لکۂ ابر کی طرح چھا جاتی ہے تو (مصیبت میں گھِرکر) وہ اللہ کو پکارتے ہیں ___اس کے لیے جذبۂ عبودیت کو خالص کرکے!… (۳۱: ۳۲)
یعنی چاروں طرف سے خدا کی نعمتیں اُمڈی پڑ رہی ہیں۔ ایک وسیع خوان بچھ رہا ہے۔ قدرت کے اس ماحول میں ایک حقیقت پسند اور حق شناس انسان کے اندر لازماً جذبۂ شکر اُبھرنا چاہیے۔ نظامِ تعلیم کا یہ فرض ہے کہ وہ اس ماحول سے اس طرح طلبہ کو روشناس کرائے کہ انھیں خدا کے احسانات و انعامات کا شعور حاصل ہو اور عبدیت کے احساس کے ساتھ ان میں شکر کا جذبہ اُبھرے۔ ہمیں سائنس‘ جغرافیہ‘ تاریخ‘ ہیئت اور دوسرے تمام مادی و طبعی علوم کی تعلیم اس طرح دینی چاہیے کہ خدا پرستانہ شعور اس میں سمو دیا گیا ہو۔ ہر تجربہ‘ مشاہدہ‘ انکشاف‘ ایجاد و اختراع اور عملِ تسخیر ہمارے اندر خدا کے شکر کی اُکساہٹ پیدا کرے۔ حضوؐر کا یہ معمول تھا کہ سواری پر بیٹھتے تو جذبۂ شکر کے ساتھ خدا کی حمد کرتے اور اپنے عجز کا اقرار! (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا…) ٹھیک اسی طرح ہمارے سائنس دان جب کسی رازِ فطرت کو سمجھ لیں‘ ہمارے موجد جب کوئی چیز ایجاد کریں‘ ہمارے کاریگر جب کسی مشین سے کام لیں اور ہمارے سپاہی جب کسی اسلحے کو ہاتھ میں لیں تو ان کی رُوحیں سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْن پکار اُٹھیں۔ اسی خدا پرستانہ جذبۂ شکر کے فقدان نے مغربی تمدّن کو مادہ پرستی میں اتنا بہکا دیا ہے کہ قدرت کے عطیات رحمت ہونے کے بجاے عذاب بن گئے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو اس اندھی مادہ پرستی سے انسانیت کو بچانا ہے۔
لوگوں نے اس طرح کی آیات سے عموماً یہ بات ثابت کرنے کی کوشش توکی ہے کہ قرآن سائنس اور دوسرے علوم حاصل کرنے کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارے جدید طبقے نے یہ کاوش نہیں کی کہ وہ کس اسپرٹ کے ساتھ اور کس نقطۂ نظر کے ساتھ علوم کی تحصیل و اشاعت چاہتا ہے۔ قرآن کا اوّلین منشا یہ ہے کہ خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت‘ اس کے احسانات و عنایات کا شعور اور جذبۂ شکروسپاس کا سرمایہ‘ مطالعۂ انفس و آفاق سے حاصل کیا جائے اور کسی بھی علم کے دائرے میں کوئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایمان باللہ کو مشعلِ راہ کی حیثیت دینی چاہیے۔ ورنہ تمام علوم غلط رُخ پر ڈھل جائیں گے اور ان سے جو عمل پیدا ہوگا وہ بھی فاسد ہوگا۔
اُوپر جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کو اور ان کی بے شمار ہم مقصد آیات کوآپ دیکھیے‘ ان سب کا منشا یہ شعور دلانا ہے کہ یہ کائنات اگر کوئی نظم رکھتی ہے‘ اس کے عناصر اگر تمھارے لیے سازگاری رکھتے ہیں‘ اس کے قوانین اگر تمھارے لیے تسخیر کی راہیں کھولتے ہیں تو یہ نظامِ فطرت یوں ہی ازخود ایسے نہیں بن گیا۔ کسی بنانے والے نے حکمت کے ساتھ اسے ایسا بنایا ہے اور تمھیں پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمارے علوم کو بھی اسی شعور کی راہ پر جانا چاہیے اور ہمارے نظامِ تعلیم کو بھی یہی مقصد سامنے رکھنا چاہیے۔
اس نکتۂ معنی کو ہم آیت ۳۲ میں بہت ہی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں انسان کو اس عالمِ نفسیات سے ایک کیفیت پیش کر کے عبرت دلائی گئی ہے۔ انسان جہاں اس کائنات کی وسیع نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے‘ وہاں اس کی مہیب قوتوں کے سامنے وہ اپنے آپ کو انتہائی بے بس بھی پاتا ہے۔ یہ بے بسی اسے ایک ایسے روحانی سہارے کا محتاج بناتی ہے جو تدابیر کی بازی ہارنے کے بعد بھی قائم رہے۔ سمندر کی موجیں بھی ایک ایسی قوت ہیں کہ جب کبھی انسان ان کی زد پر آتا ہے تو سارے سہارے کھو بیٹھنے کے بعد خدا کی طرف بڑے سچے والہانہ جذبے سے رجوع کرتا ہے۔ آج بھی جب جہاز تباہی کے طوفان میں گھِرجاتے ہیں تو جدید الحاد پسند انسان بھی خدا کو یاد کرتا ہے اور بارہا خدا اپنے بے بس بندوں کی دکھ بھری فریادیں سن کر ان کو بچا نکالتا ہے۔ لیکن بچ نکلنے کے بعد کم ہی ہیں جو راہِ حق پر ’’مقتصد‘‘بن کے چلتے رہیں‘ بقیہ پھر جُحود میں پڑجاتے ہیں۔ بلاشبہہ یہ علم النفس کا ایک باب ہے مگر اپنی ایک خاص غایت کے ساتھ۔ اسی غایت کو سامنے رکھ کر نفسیات کا علم مدوّن کرنے کی‘ نفسیات کا تعلیمی نقشہ بنانے کی اور نفسیات کا نصاب ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس غایت عبرت اندوزی اور خداشناسی کو مقصود بنائے بغیر نفسیات کا علم مدوّن کرنا یا اس کا سلسلۂ تعلیم و تعلّم جاری رکھنا اسلامی نقطۂ نظر سے قطعاً بے سود بلکہ اُلٹا مضر ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم کی اوّلین غایت خدا اور اس کی صفات اور اس کے حقوق کی معرفت دینا ہے۔ وہ خدا جس کا مقام یہ ہے کہ:
___اللہ ہی ہے جو قیامت (کی گھڑی) کا علم رکھتا ہے___وہی ہے جو مینہ برساتا ہے___ وہی ہے جو یہ جانتا ہے کہ رحموں کے پردے میں کیا کچھ ہے (۳۱:۳۴)۔ اور اس کے بالمقابل انسان___عقل کے اس پتلے ___ کاحال یہ ہے کہ:
___کسی جان کو نہیں معلوم کہ کل وہ کیا کرے گی___کسی جان کو نہیں معلوم کہ وہ زمین کے کس حصے میں دم توڑے گی۔ (۳۱: ۳۴)
کائنات اور زندگی کے سارے احوال کا مکمل علم صرف اللہ کو ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔(۳۱: ۳۴)
یہ ہے وہ مزاج جس سے ہمارے نظامِ تعلیم کو آراستہ ہونا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر سے معلومات مرتب ہونی چاہییں اور پھر بعد کی نسلوں کی طرف منتقل ہونی چاہییں۔
کلماتِ الٰھی کا فھم
اسی سورت میں آتا ہے کہ اگر زمین کے سارے کے سارے درختوں سے بے شمار قلم بنا لیے جائیں اور ساتوں سمندر روشنائی میں بدل لیے جائیں اور لکھنے کے اس سامان کے ساتھ ’کلمات اللہ‘ یعنی خدا کی نعمتوں‘ اس کی قدرتوں‘ اس کی آیتوں‘ قوانین و نوامیس‘ اس کے احکام اور فیصلوں‘ اس کی مخلوقات کے احوال کو قلم بند کیا جانے لگے تو روشنائی کے سمندر ختم ہوجائیں گے اور قلم گھِس گھِس کر نابود ہوجائیں گے مگر خدا کے کلمات احاطۂ تحریر میں نہ آسکیں گے۔ ذکر تو اس کے مقامِ عظمت‘ اس کی قدرت کی لامحدود وسعتوں اور اس کی بے پایاں تخلیقات کا ہے۔ لیکن ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ اصل کاوش کا میدان انسان کے لیے یہی ہے کہ وہ کلماتِ الٰہی سے اپنا دامنِ علم و ایمان بھرتا رہے۔ افراد اور قومیں اور نسلیں اپنی محنتیں اس مقصد پر کھپاتی چلی جائیں۔ ع
کیا اور جہاں میں رکھا ہے ‘ اُس جانِ جہاں کی بات کریں۔
اسلامی نظامِ تعلیم کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے زیراثر ذہنوں میں تحریک پیدا کرے کہ وہ مطالعۂ آفاق و انفس کریں تو اس مقصد سے کریں کہ کلماتِ الٰہی کی جستجو کرنی ہے‘ ان کو سمجھنا ہے اور ان سے روشنی اور قوت حاصل کرنی ہے۔
خشیّت
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ شُکر دین کا اگر ایک پہلو ہے تو دوسرا لازمی پہلو خشیت ہے۔ احسان کی قدر ازخود احسان کے چھن جانے کا اندیشہ پیدا کرتی ہے۔ سو جہاں خدا کی رحمت کے لیے تمناے بے تاب موجود رہنی چاہیے وہاں رحمت سے محرومی کی فکر بھی کارفرما ہونی چاہیے۔ آدمی رحمتِ الٰہی کے نشے میں پڑکر بعض اوقات اپنی ذمہ داریاں بھول جاتا ہے اور جب یکایک قہر کی بدلیاں چمکتی دیکھتا ہے تو حواس کھو بیٹھتا ہے۔ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِـبِـہٖ وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوْساً۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۳)
پس خشیت کا جذبہ ایک پاسبان جذبہ ہے اور یہ آدمی کو محتاط اور چوکنّا رکھتا ہے۔ اسے برسرِعمل لانے کے لیے آخرت کے محاسبے کا تصور دلایا گیا ہے۔ سورئہ لقمان میں انتباہ دیا گیا ہے کہ:
معاملات کا آخری فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں ہوگا۔ (۳۱: ۲۲)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اندیشہ رکھو اس دن کا جس دن نہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام آئے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کے لیے کچھ مفید ہوسکے گا۔ یقینا خدا کا وعدہ سچا ہے‘ سو تم کو دنیوی زندگی دھوکے میں نہ ڈالنے پائے اور تم کوا للہ کے بارے میں وہ دغاباز (شیطان) کسی فریب میں مبتلا نہ کر دے۔ (۳۱: ۳۳)
بہت سے مغالطے صاف کرنے کے لیے یہ بھی جتا دیا کہ لکھُوکھا انسانوں کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنے میں خدا کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہے:
تم سب کو بنانا اور تم سب کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بس ویسا ہی ہے جیسے ایک فرد کا! (۳۱: ۲۸)
اور حضرت لقمان بھی اپنے فرزند کو خدا کی مضبوط گرفت سے یوں آگاہ کرتے ہیں کہ: اے میرے بیٹے! اگر رائی برابر بھی کوئی چیز کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (کہیں) ہو تو اللہ (جب چاہے) اسے لاحاضر کرے۔ (۳۱: ۱۶)
اسلامی زندگی خدا کے محاسبے اور خدا کی گرفت کا خوف رکھے بغیر نہیں بنتی۔ اسلام کا انسانِ مطلوب وہی ہے جو محاسبۂ آخرت کو ذہن میں رکھ کر سوچتا‘ زبان کھولتا اور عملی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ وہ ادنیٰ ادنیٰ وقتی مفادات کے بجاے‘ خدا کی رضا جیسا اُونچا منتہا سامنے رکھتا ہے۔
اسلامی نظامِ تعلیم پر بھی واجب آتا ہے کہ وہ اس خشیت سے دلوں کو آراستہ کرے‘ محاسبۂ آخرت کا احساس تازہ کرے اور رضاے الٰہی پر نگاہوں کو مرتکز کرا دے۔ حکمت اور نیکی کے لیے یہ خشیت ایک لازمی بنیاد ہے۔
توحید
خدا کے احسانات کے جواب میں شکر اور احسان شناسی کا رویّہ صرف توحید کو تسلیم کرنے ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔ ورنہ اگر خدا کے عطیات سے استفادہ کرکے احساسِ شکر پورے کا پورا اس کے حضور پیش کرنے کے بجاے کچھ دوسری مفروضہ ہستیوں پر تقسیم کردیا جائے تو جس کا حق واجب تھا اس کا حق تو ادا نہ ہوا اور جن کا حق کچھ بھی نہ تھا ان تک بے جا طور پر جا پہنچا۔حضرت لقمان اپنے فرزند کو تعلیم دیتے ہیں کہ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (۳۱: ۱۳) ۔ظلم کہتے ہیں حق ماری کو۔ یہ خدا کی حق ماری ہے اور اس لیے بہت بڑی حق ماری ہے کہ اس کا کھاکر گُن دوسروں کے گائے جائیں۔
پس اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسلوں کو توحید پر جما دے اور ان کو اس سے روکے کہ وہ ذات میں‘ صفات میں‘ حقوق میں یا حاکمانہ اقتدار میں خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں۔
خدا کا کُلی انکار بہ حیثیت مجموعی انسانیت نے شاید کبھی بھی نہیں کیا‘ نہ آج کا انسان تصورِ خدا سے ذہن کو خالی کرسکا ہے۔ مصیبت یہی رہی ہے کہ کسی نہ کسی نوع کا شرک اولادِ آدم کو لے ڈوبا ہے۔ کسی نے ذات میں شریک کیا‘ کسی نے صفات میں‘ کسی نے عبادات میں سے دوسروں کو حصہ دیا‘ کسی نے استعانت دوسری بارگاہوں سے کی اور کسی نے طاعت کے لیے دوسرے اقتدار سامنے رکھ لیے۔ اسلام نے عبادت‘ استعانت اور طاعت کے تینوں پہلوئوں سے انسان کو توحید پر جمایا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم بھی وہی ہوسکتا ہے جو انسانیت کو یہی درسِ توحید دے۔
سماجی روابط کی درستی
خدا کے احسانات کے شعور سے جس دل میں شکروسپاس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ انسانوں کے احسانات کا بھی بہترین قدردان ثابت ہوتا ہے اور انسانوں میں سب سے بڑھ کر احسان والدین کا ہے اور ان میں سے بھی والدہ کا احسان بہت بڑا ہے۔ چنانچہ حضرت لقمان اپنے بچے کو دوسری نصیحت والدین سے حسنِ سلوک کی کرتے ہیں۔ وہ خدا کا مطالبہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
میرا شکر ادا کر اور (میرے بعد) اپنے والدین کا بھی! (۳۱: ۱۴)
سماجی رابطوں میں دین حق نے والدین کو اوّلین مقام دیا ہے۔ خدا کے عظیم حق کے بعد جو شخص والدین کے حق کو بھی پہچان لیتا ہے‘ پھر وہ دوسرے تمام رابطوں کے حقوق کا احساس کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے کردار میں یہ جذبہ احسان شناسی اس اصل الاصول کی حیثیت سے پیوست ہوجاتا ہے کہ مجھے ہر بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا ہے۔ مجھے جس سے فائدہ اٹھانا ہے اس کو فائدہ پہنچانا بھی ہے جس سے میں کچھ لیتا ہوں اسے دینا بھی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ معاشرہ اور اس کے ادارات‘ حکومت‘ قوم اور انسانیت سبھی سے آدمی کو بے شمار فائدے پہنچتے ہیں اور اگر وہ احسان شناسی ہو تو وہ ہر استفادے کے جواب میں کوئی نہ کوئی خدمت پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ والدین کا جس نے حق پہچانا‘ پھر وہ خاندان اور ذوی القربیٰ اور پڑوسیوں اور افسروں اور ماتحتوں‘ بلکہ جانوروں تک کے حقوق کا احساس کرنے لگتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام سماجی روابط کی درستی کا دارومدار والدین کا حق پہچاننے پر ہے۔
لیکن والدین کی طاعت و خدمت خدا کی عبادت و اطاعت سے نچلے مرتبے پر ہے۔ مقدّم خدا کا حق ہے۔ خدا کا حق مار کر اگر والدین کا حق ادا کیا جائے تو شرک کی راہ کھل گئی۔ اس وجہ سے یہ وضاحت بھی کی گئی کہ وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا (۳۱: ۱۵)‘ یعنی اگر والدین تم کو خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک بنانے کے لیے مجبور کریں جو تمھارے علم و ایمان میں نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کی غلط بات کی اطاعت نہ کرو۔
یعنی والدین کی اطاعت اصولاً انسانی تعلقات کے تمدنی دائرے میں ہر دوسری اطاعت خدا کی اطاعت کی حدوں کے اندر کی جاسکتی ہے۔ ان حدوں کو توڑ کر نہیں۔ جو اطاعت سب سے بڑی اطاعت کی حدوں کو پھاندنا چاہے وہ ترک کر دی جائے گی۔ والدین کے کہنے سے شرک کی روش اختیار نہیں کی جا سکتی‘ ان کے ایسے حکم سے انکار لازم ہے۔ البتہ اس حالت میں بھی ان کا پاسِ ادب رہے گا۔ چاہا گیا ہے کہ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ، یعنی اس اصولی اختلاف کے باوجود ان سے دنیوی تعلقات خوش اسلوبی سے نبھائو۔ یہاں سے ضمناً یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ سماجی رابطے___ حکمران سے‘ والدین اور اقربا سے‘ کاروباری شرکا سے‘ دفتری افسروں سے___ ایمان و مسلک کے شدید اورواضح اختلافات کے باوجود خوش اسلوبی سے نبھائے جاسکتے ہیں۔ اور ان رابطوں کا قائم رہنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ دعوتِ حق پہنچانے کے دروازے بند نہ ہوجائیں۔
ساتھ ہی پھر تاکید کہ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ (۳۱: ۱۵)۔ زندگی میں پیروی کرو تو صرف ایسے ہی رہنمائوں کی جو خداوندتعالیٰ کی طرف رجوع رکھنے والے ہوں۔ زندگی کے اصول و اقدار اُنھی سے لو۔ یہاں اشارہ یہ بھی ہے کہ اسلامی معاشرے میں سیاسی اور ذہنی قیادت کے مناصب ایسے افراد کوسونپے جائیں جن کی زندگیاں رجوع الی اللہ کی آئینہ دار ہوں۔ گویا معیارِ انتخاب بھی معین ہوگیا۔ علاوہ ازیں یہ اشارہ بھی یہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ ہمیں درس گاہوں کے معلّمین بھی ایسے ہی لینے چاہییں جو رجوع الی اللہ کی صفت سے متصف ہوں‘ کیوں کہ طلبہ ان کے اتباع میں چلیں گے۔
اس ہدایت کی روشنی میں ایک اسلامی نظامِ تعلیم کو ان امور کی تربیت دینی چاہیے:
خدا کی اطاعت کے تحت سب سے بڑھ کر والدین کی اطاعت‘ اور پھر درجہ بدرجہ دوسرے تمام روابط کے حقوق کو پورا کرنا۔
خدا کی اطاعت سے اگر والدین یا کسی دوسرے کا حکم ٹکرائے تو اسے قبول کرنے سے انکار کرنا۔
اعتقاد و مسلک کے اختلاف کے باوجود جائز دنیوی معاملات کی حد تک سماجی رابطوں کو نبھانا۔
زندگی کے سفر میں صرف ایسے عناصر کی رہنمائی قبول کرنا جو خدا کی طرف رجوع دلانے والے ہوں۔
اِن نکات پر ہماری سِوکس (Civics) کی ترتیب ہونی چاہیے۔
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر
حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ اے بیٹے! نماز قائم کرو‘ معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور (اس جدوجہد میں) جو کچھ بھی پیش آئے اسے حوصلہ مندی سے برداشت کرو! (۳۱:۱۷)
آخر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ’ہمت کے کام ہیں‘۔ درحقیقت دین کا بہت ہی بڑا تقاضا یہ ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ اسلام اپنے انسانِ مطلوب کو اس مقصد کے لیے اٹھانا چاہتا ہے کہ وہ تمدن کے پورے دائرے میں منکر کا سدّباب کرے اور معروف کا سکّہ چلانے کی جدوجہد کرے۔ اسے نیکی کا نظام قائم کرنا ہے اور بدی کی جڑ کاٹنی ہے۔ وہ حق کا سپاہی ہے اور باطل کے خلاف جہاد میں اسے ساری قوتیں کھپانی ہیں۔ خیالات‘ نظریات‘ اخلاق‘ رسوم‘ قانون‘ معاشیات‘ کاروبار‘ سیاست‘ بین الاقوامی مسائل کے بے شمار دوائر ہیں جہاں جہاں بھی اسے قانونِ الٰہی اور فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم کے خلاف کوئی منکر دکھائی دے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے ختم کرنے اور لوگوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف قانونِ الٰہی‘ بے آمیز فطرتِ انسانی اور عقلِ سلیم جن امور کا تقاضا کرتی ہے ان کو نافذ کرنے کے لیے زور لگائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ غیراسلامی نظام اور ماحول میں تبدیلی لائے‘ انقلاب پیدا کرے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی تبدیلی تکلیف اٹھائے بغیر اور قربانیاں دیے بغیر اور مزاحمتوں کا سامنا کیے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔ بدی کا زور توڑنے اور نیکی کا راج قائم کرنے کے لیے جو جہاد لازم آتاہے وہ کوئی کھیل تو ہے نہیں۔ اس لیے انتباہ دیا گیا ہے کہ اس مہم میں جو جو کچھ مزاحمتیں اور مصیبتیں پیش آئیں ان کو حوصلے سے سہارو۔
ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر کہہ کر توجہ دلائی کہ یہ ہے بلند ہمت لوگوں کے کرنے کا کام! یہ ہے عظیم الشان معرکہ جس کے لیے بازیاں لگائی جانی چاہییں۔ یہ ہے نصب العین جس کے لیے جانیں لڑانا مردوں کے شایانِ شان ہوسکتا ہے۔ نوکری اور کاروبار اور عہدے اور ادنیٰ ادنیٰ خواہشات پر مرتے رہنا اہلِ دل کا کام نہیں۔
نماز قائم کرنے کی تلقین یہاں یوں مناسب تھی کہ خدا سے شکر کا تعلق قائم رکھنا تو اس کے بغیر ممکن ہے ہی نہیں‘ لیکن آگے جو مردافگن مہم سونپی جارہی ہے اس کا ایک ایک قدم اٹھانے کے لیے نماز سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ نماز ہی خدا سے تعلق کا ذریعہ ہے اور نماز ہی انسانی دائرے میں اداے فرض کے لیے ضروری ہے۔ نماز خدا کے حضور شکر کا اظہار ہے اور بندوں کے مقابلے میں صبرآموز اور ہمت افزا۔
اب یہ بات خودہی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تعلیم کو کیا نصب العین سامنے رکھنا چاہیے اور کس مقصد کے لیے نئی نسلوں کو تیار کرنا چاہیے۔ صحیح تعلیم وہ ہے جو ایک طرف بجاے خود امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرے‘ معروف ومنکر کا فہم دلائے اور معروف کو قائم کرنے اور منکر سے روکنے کے لیے جہاد کا انقلابی جذبہ ودیعت کرے۔ پھر ہماری تعلیم گاہوں میں تربیت کا ایسا ماحول ہونا چاہیے جو طلبہ کو اقامتِ صلوٰۃ پر آمادہ کرسکے۔ وہ ان کو صبروہمت اور حوصلہ و عزم سے آراستہ کرکے نکالے۔
روشِ کِبر سے اجتناب
خدا کے لیے جذبۂ شکر عبودیت کی جس راہ پر لے جاتا ہے اس میں کبرورعونت کا کوئی مقام نہیں آسکتا۔ مسلکِ شکر اور مسلکِ کبر میں کامل منافات ہے۔ حضرت لقمان اپنے بچے کو تاکید کرتے ہیں کہ:
لوگوں کے مقابلے پر اپنے گال نہ پھلائو اور زمین میں گھمنڈ کی چال نہ چلو۔ خدا کسی شیخی باز‘ غلط کار کو پسند نہیں کرتا۔ (۳۱: ۱۸)
خداپرستی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دوسرے انسانوں کے لیے مساویانہ مرتبے کا احساس کرے کیوں کہ سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور ایک ہی اللہ کے بندے ہیں۔ دوسروں کے مقابلے میں فخروغرور‘ اکڑفوں اور ان کی تحقیر کے لیے اسلامی زندگی میں گنجایش نہیں۔ جس شخص میں رتی بھر کبر بھی ہوگا وہ اُخروی کامرانی حاصل نہ کرسکے گا اور نہ وہ اس ارضی زندگی میں احسان کیش بن کر حیاتِ طیبہ سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ غرورِ مال‘ غرورِ حُسن‘ غرورِ صحت‘ غرورِ نسل‘ غرورِ وطن‘ غرورِ آبا‘ غرورِ اولاد‘ غرورِ علم اور غرورِ اقتدار کے تمام دروازے یہاں بند ہیں۔ نہ انفرادی کبر کی رخصت ہے‘ نہ طبقاتی اور نہ جماعتی فخر کی۔
انسانی معاشرے کے فساد کی شاید سب سے وسیع الاثر بنیاد یہی ہے کہ کوئی فرد‘ کوئی خاندان‘ کوئی نسل‘ کوئی طبقہ یا کوئی جتھا اپنے متعلق یہ سوچتا ہے کہ میں بڑا ہوں اور دوسرے چھوٹے ہیں۔ میرے حقوق زیادہ ہیں‘ میرے مفادات اہم تر ہیں اور مجھے ترجیح حاصل ہے۔ پھر جس کا دائو چل جاتا ہے وہ اقتدار‘ قانون‘ روایات‘ معاشی تسلط‘ ذہنی تفوق‘ طبقاتی بالادستی کے زور سے زندگی کے توازن کو غارت کر دیتا ہے۔ جواباً دوسروں میں بھی ایسا ہی مقام حاصل کرنے کے لیے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور پھر رسّہ کشی ہونے لگتی ہے۔
کبر ہی کے تحت ماضی کے کچھ سرپھرے انسانوں نے خدائی کے دعوے کیے۔ کبر ہی کے تحت چنگیزوں اور ہلاکوئوں نے مدنیت کو پیروں تلے روندا‘ کبر ہی کے تحت ہٹلر اور مسولینی کی آمریت اُبھری اور کبر ہی کے تحت آدمی آدمیوں کے خلاف گھنائونے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔
اسلام انسانوں کے لیے مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور ہماری درس گاہوں کو بھی طلبہ کے اندر یہی روح پھونکنی چاہیے۔ نظامِ تعلیم نئی نسلوں کو تلقین کرے کہ وہ انسانیت کے سامنے گال پھلائے اور تیوری چڑھائے ہوئے نہ آئیں اور زمین پر متکبرانہ روش کے ساتھ زندگی نہ گزاریں۔ ان کو مختالِ فخور نہیں بننا چاہیے۔
علمِ حق کی مشعل
اس سورئہ تعلیمات میں ایک بیش قیمت نکتہ یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ آدمی کو جادئہ ہستی پر ہرقدم علم___ یعنی علمِ حق___ کی روشنی میں بڑھانا چاہیے۔ جہالت کی اندھیاریوں میں کوئی قدم نہ رکھنا چاہیے۔
آیت ۶ میں اس فاسد کردار کو بیان کیا جو لھو الحدیث کے ذریعے مسافرانِ حیات کو اللہ کے راستے سے بھٹکاتا ہے اور یہ کارنامہ وہ بغیر علم سرانجام دیتا ہے۔
آیت ۱۵ میں حضرت لقمان کی نصیحت میں شرک سے منع کرتے ہوئے مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ کے الفاظ آئے ہیں یعنی جب تک تمھیں واضح طور پر علم نہ ہو کہ خدا کا کوئی ساجھی ہے___ تم نے دیکھا ہو یا دلیلِ قطعی سے جانا ہو‘ یا الہامی رہنمائی سے معلوم کیا ہو___ تو تمھارایہ کام نہیں کہ محض والدین کے کہنے یا کسی اور کے زور ڈالنے سے ایک نامعلوم بات کو واقعہ تسلیم کرلو۔
آیت ۲۰ میں ایک فاسد کردار کا ذکر ہے جو اللہ کے بارے میں اور اس کے دین کے بارے میں بغیر کسی علم کے بحثابحثی کرتے ہیں۔ مختلف دعوے پیش کرتے ہیں‘ حقیقتوں کی تردید کرتے ہیں۔ ان کو کوئی یقینی ہدایت حاصل نہیں ہوتی اور ان کے پاس کسی ثابت شدہ اور غیرمحرف الہامی نوشتے کی سند نہیں ہوتی۔ علم کے بغیر جو لوگ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے عادی ہوجاتے ہیں‘ ان کو جب اللہ کے نازل کردہ ہدایت نامے کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو وہ اس بنیاد پر اسے قبول نہیں کرتے کہ ہم تو اسی روش پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ ان کی اس جاہلانہ ذہنیت کو خود ان پر نمایاں کرنے کے لیے یہ استفہامی اشارہ فرما دیا کہ اَوَلَوْ کَانَ الشَّیْطٰنُ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْر (۳۱:۲۱)___ یعنی یہ بھی سوچا ہوتا کہ کیا ہوگا نتیجہ اگر تمھارے باپ دادوں کو یا خود تم کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف لیے جا رہا ہو۔
ان آیات کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کو واضح قسم کے علمِ حقائق___ جو ثابت شدہ الہامی ہدایت پر مبنی ہو یا مشاہدے و تجربے کا یقینی ماحصل!___ کی روشنی میں سوچنے اور کلام کرنے اور عملی روش اختیار کرنے کی تربیت دے۔ عالمِ افکار ہو یا عالمِ کردار‘ ہمارے نظامِ تعلیم کے تربیت یافتہ ضمیر‘ انسان کو علم کی روشنی کے بغیر ظن و تخمین کے اندھیروں میں گامزن نہ ہونے دیں۔ اندھی آبا پرستی اور قوم پرستی اور ہر قسم کی ’پرستی‘ اور جھوٹے تعصبات سے طلبہ کو بچایا جائے۔ وہ بڑی بڑی قوموں‘ جابر و ظالم حکمرانوں اور غلط ماحول سے متاثر ہوکر حقائق کی راہ سے ہٹ کر کچے قیاسات اور ادھورے نظریات کے سامنے مرعوبانہ اور مقلدانہ شان سے سرخم نہ کریں۔ ان پر حقائق اور نظریات کا فرق واضح ہونا چاہیے۔ وہ قائل ہوجائیں کہ قیاسی نظریات پر اخلاق‘ کردار اور تمدن کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی جاسکتی۔
تھذیب و شایستگی
اُوپر کے وسیع نکات حکمت کے ساتھ ساتھ حضرت لقمان اپنے فرزند کو مہذب‘ صاف ستھرے اور سلیقہ مندانہ اطوار اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ وہ سکھاتے ہیں کہ:
میانہ روی کی چال چلو‘ اپنی آواز کو دھیما رکھو‘ کیوں کہ گدھے کی آواز بہت بُری آواز ہے۔ (۳۱: ۱۹)
یعنی چلو تو بہت باوقار طریقے سے چلو۔ نہ یوں کہ آدمی گھبرایا ہوا بھاگ رہا ہو‘ اور نہ یوں کہ مریل طریق سے چل رہا ہو۔ ویسے وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ کا ایک جامع مطلب یہ ہے کہ ہرمعاملے میں اعتدال کا رنگ پیدا کرو۔ بولو تو دھیمی آواز سے بولو۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے سے آدمی جانوروں سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔ مزید تفصیلات قرآن میں بھی… اور حدیث میں بھی بڑے پیمانے پر مذکور ہیں۔
مطلب یہ ہوا کہ اسلامی زندگی چال ڈھال‘ گفتار رفتار‘ کھان پین [کھانے پینے] جیسے اُمور میں اعتدال اور وقار اور سلیقہ و شایستگی کی متقاضی ہے۔ سو ہمارے نظامِ تعلیم کو یہ غایت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ اچھے آداب و اطوار سے طلبہ کی روزمرہ زندگی کو آراستہ کرے۔ ان کو میانہ روی سکھائے اور انتہاپسندی سے روکے۔
میں نے سورئہ لقمان کو جس طرح سے سمجھا ہے اجمالاً مطالعے کا ماحصل پیش کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سورہ کے نکات اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیادوں‘ اصولوں اور مقاصد کو بخوبی معین کردیتے ہیں۔ ان نکات کی شرح و تفصیل کے لیے نہ صرف پورے قرآن سے استفادہ کرنا لازم ہے بلکہ حضورؐ نے عملاً ایک نظامِ تعلیم و تربیت چلاکر قرآن کی جو شرح پیش فرمائی ہے نیز زبانِ مبارک سے حکمتِ قرآنی کو جس طرح واضح کیا ہے۔ اس سارے کارنامے کی مدد لے کر ہی ہم کسی تعلیمی خاکے میں صحیح رنگ بھرسکتے ہیں مگر بنیادی خاکہ ہمیں سورئہ لقمان میں یک جا ملتا ہے۔
خدا کرے کہ یہ کاوش مبنی برہدایت ہو‘ پڑھنے والوں کے لیے باعثِ افادہ ہو‘ اللہ کے کچھ بندوں کے سینوں میں اسلامی نظامِ تعلیم کو عملاً پوری طرح کارفرما کرنے کا جذبہ بیدار ہو اور لکھنے والے کے لیے ذریعۂ مغفرت ٹھیرے۔ [آمین]
Comments
Post a Comment
If you have any doubts,please let me know