Posts

بغداد کا انجام ایک سبق

Image
  اسلام کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم باالله آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔! کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔۔۔۔۔! پھر معتصم سے کہا : " کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ " بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔ بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟ " ہلاکو نے فورا کہا : " پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟ وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔۔۔۔۔! ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: " تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟" خلیفہ نے تأسف سے جواب دیا: " اللہ کی یہی مرضی تھی " ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا

اللہ آسانیاں بانٹنےکی توفیق دے

Image
  ایک نوجوان نے درویش سے دعا کرنے کو کہا ...... درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دُعا دی: "اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے" دعا لینے والے نے حیرت سے کہا: حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکاۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں.... اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، الله کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں ..... درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا: "میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا ... یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں۔۔۔۔ اور یاد رکھو "رَازِق اور الرَّزَّاق" صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے.... تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ..... تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو." درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دو

اللہ تعالیٰ کےاسم اعظم

                                                                                     اسم اعظم                  پہلی حدیث :یعقوب بن عاصم ﷜سے روایت ہے وہ روایت کرتے ہیں دو صحابہ ﷢ سے کہ انہوں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کوئی بھی بندہ «[لا الہ اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملکولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر» روح کے اخلاص اور دل کی تصدیق کے ساتھ زبان سے کہتا ہے تو اللہ تعالی آسمان کو پھاڑ کر زمین میں اس کے قائل کودیکھتا ے ہے اور جس بندے پر اللہ تعالیٰ نظر فرمالیں تو اس کا حق ہوتا ہے جو کچھ اس نے مانگا ہے اسے دے دے ‘‘۔ دوسری حدیث : برید ۃ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا ، «اللھم انی اسالک بانی اشھد انت اللہ لا الہ لا انت الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یو لد ولم یکن لہ کفوا احد » (اے اللہ میں تجھ سے یہ گواہی دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے تیرے سووا کوئی معبود نہیں تو ایسا اکیلا او ربے نیاز ہے کہ نہ تو نے جنا اور نہ تو حنا گیا اور تیرا ہم مثل کوئی نہیں ) تو فرمایا ،تو نے اللہ کے اس اسم اعظم کے واسطے سے سوال  کیا ہے اس مے ساتھ اگر اگر سوال کیا جائے تو دیتا ہے اور دعا کیج

ایک انتہائی گنہگار آدمی کا قصہ

Image
  بصرہ کے قریب ایک انتہائی گنہگار آدمی رہتا تھا جب وہ مر گیا تو اس کے جنازے کو اُٹھانا تو بہت دور کی بات ہے کسی نے ہاتھ لگانا بھی گوارا نہ کِیا۔ایسی حالت میں اس کی بیوی نے کرائے کے مزدور لیے وہ جنازہ اُٹھوا کر قبرستان لے گئی۔قبرستان کے قریب پہاڑوں میں ایک زاہد رہتا تھا جس کی عبادت کا بہت شہرہ تھا۔جنازہ رکھنے سے پہلے وہ جنازہ پڑھنے کا منتظر تھا۔جب اس زاہد کے جنازہ پڑھانے کی خبر پہنچی تو لوگ جوق درجوق جمع ہونا شروع ہو گئے انہوں نے اس زاہد کی اقتداء میں نمازِ جنازہ پڑھی۔ لوگوں کو زاہد کے اِس فعل پر سخت حیرانی ہوئی۔انہوں نے نمازِ جنازہ کے بارے اس سے سوال کِیا تو اس نے بتایا کہ مجھے خواب میں یہ حکم ملا،فلاں جگہ جاؤ وہاں جنازہ آرہا ہے اس کے ساتھ صرف ایک عورت ہے جس کا جنازہ ہے وہ مغفور ہے۔اِس جملے پر لوگوں کی حیرانی میں مزید اضافہ ہُوا۔عورت سے اس کے حالات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ درست ہے کہ یہ شرابی تھا اورشراب خانے میں ساری عمر گزاری مگر اس میں ایک صفت تھی کہ صبح جب یہ مدہوش نہ ہوتا تو با وضو نمازِ فجر ادا کرتا تھا۔دوسرا اس کے گھر میں یتیم بچے رہتے تھے جن سے اپنے بچوں جیسا سلوک کرتا تھا۔تیس

تکبر اور اس کی اقسام

Image
  ’خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام تکبر ہے ۔ چنانچہ رسول اکرم نور مجسم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ واصحابہ وبارک وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا ہے ۔ جس کا مفہوم ہے کہ: ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النِّاسِ ترجمہ : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔‘‘ امام راغب اصفہانی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْغَنِی لکھتے ہیں کہ : ’’تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے ۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے ’’مُتَکَبِّر ‘‘ اور مغرور کہا جاتا ہے ۔ تکبر کی تین قسمیں ہیں ۔ تکبر کی پہلی قسم : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مقابلے میں تکبر کرنا۔” تکبر کی یہ قسم کفر ہے ۔ جیسا کہ فرعون کا کفر ۔ فرعون نے کہا تھا کہ ترجمہ : ’’میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں تو اللہ نے اسے دنیا و آخرت دونوں کے عذاب میں پکڑا۔‘‘ ( سورہ النزعات ) فرعون کی ہدایت کے لیے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت سیِّدُنا ہارون عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجا ۔ انہوں نے فرعون کو اللہ رب العزت کا پیغام بھی پہنچای

کامیابی کا راز

Image
  مارک سپٹز دنیا کا نامور تیراک تھا‘ یہ تاریخ کا پہلا تیراک تھا جس نے اولمپکس میں 9 بار فتح حاصل کی‘ یہ اکٹھے سات گولڈ میڈل حاصل کرنے والا پہلا تیراک بھی تھا‘ مارک سپٹز نے 1972ءمیں میونخ کے اولمپکس میں سات گولڈ میڈل لیے اور پوری دنیا کو حیران کر دیا‘وہ یہ ریکارڈ قائم کرنے کے بعد سٹیج پر بیٹھا اور ہنس کر رپورٹرز کے سوالوں کے جواب دینے لگا‘ایک رپورٹر نے اچانک اس سے کہا ”مارک ٹوڈے از لکی فار یو“ یہ فقرہ سیدھا اس کے دل پر لگا۔ وہ تڑپ کرمڑا اوررپورٹر کو سٹیج پر آنے کی دعوت دے دی‘ رپورٹرڈرتے ڈرتے سٹیج پر آ گیا‘ مارک سپٹز نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور بڑے پیار سے بولا ”میں 1968ءمیں میکسیکو کے اولمپکس میں شریک تھا‘ میں نے بڑی کوشش کی لیکن میں آدھ منٹ یعنی تیس سیکنڈ سے ہار گیا‘ میں نے اس وقت فیصلہ کیا میں اگلا اولمپکس بھی جیتوں گا اور سب سے زیادہ گولڈ میڈل بھی حاصل کروں گا“ وہ رکا اور پھر بولا ”تم جانتے ہو مجھے تیس سیکنڈ کور کرنے کےلئے کتنی محنت کرنی پڑی“ رپورٹر خاموش رہا‘ مارک سپٹز چند سیکنڈ رک کر بولا ”میں چار سال میں دس ہزار گھنٹے پانی میں رہا‘ میں نے ان چار برسوں میں ایک بھی چھٹی نہیں کی‘ می

حُسن اخلاق : ایمانِ کامل کی علامت

Image
  ارشادِ ربانی ہے:تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ کرو، اس اخلاقی درس کو ہرگز نہ بھولو،ہر جگہ اورہروقت اسے یاد رکھو‘‘۔ایک حدیث نبوی ؐ کے مطابق مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو۔اخلاق، خُلق سے ہے،خُلق کے لغوی معنی ہیں،عادت اور خصلت اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی، مروت، اچھا برتاؤ، اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں ۔اخلاق کی دو قسمیں ہیں:ایک عام اخلاق اور دوسرے اعلیٰ اخلاق ۔ اخلاق کی معمولی قسم یہ ہے کہ آدمی کا اخلاق جوابی اخلاق ہو کہ جو مجھ سے جیساکرے گا،میں اس کے ساتھ ویسا کروں گا۔ یعنی جو شخص اس سے کٹے، وہ بھی اس سے کٹ جائے،جو شخص اس پر ظلم کرے وہ بھی اس پر ظلم کرنے لگے،جو شخص اس کے ساتھ برائی کرے وہ بھی اس کے لیے برا بن جائے، یہ عام اخلاق ہے۔  اس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پروا کیے بغیر اپنا رویہ متعین کرے۔اس کا اخلاق اصولی ہو ،نہ کہ جوابی اور اس اخلاق کو وہ ہرجگہ برتے، خواہ معاملہ موافق کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ، وہ جوڑنے والا ہو ،حتیٰ کہ اس کے