کامیابی کا راز




 مارک سپٹز دنیا کا نامور تیراک تھا‘ یہ تاریخ کا پہلا تیراک تھا جس نے اولمپکس میں 9 بار فتح حاصل کی‘ یہ اکٹھے سات گولڈ میڈل حاصل کرنے والا پہلا تیراک بھی تھا‘ مارک سپٹز نے 1972ءمیں میونخ کے اولمپکس میں سات گولڈ میڈل لیے اور پوری دنیا کو حیران کر دیا‘وہ یہ ریکارڈ قائم کرنے کے بعد سٹیج پر بیٹھا اور ہنس کر رپورٹرز کے سوالوں کے جواب دینے لگا‘ایک رپورٹر نے اچانک اس سے کہا ”مارک ٹوڈے از لکی فار یو“ یہ فقرہ سیدھا اس کے دل پر لگا۔

وہ تڑپ کرمڑا اوررپورٹر کو سٹیج پر آنے کی دعوت دے دی‘ رپورٹرڈرتے ڈرتے سٹیج پر آ گیا‘ مارک سپٹز نے اسے اپنے ساتھ بٹھایا اور بڑے پیار سے بولا ”میں 1968ءمیں میکسیکو کے اولمپکس میں شریک تھا‘ میں نے بڑی کوشش کی لیکن میں آدھ منٹ یعنی تیس سیکنڈ سے ہار گیا‘ میں نے اس وقت فیصلہ کیا میں اگلا اولمپکس بھی جیتوں گا اور سب سے زیادہ گولڈ میڈل بھی حاصل کروں گا“ وہ رکا اور پھر بولا ”تم جانتے ہو مجھے تیس سیکنڈ کور کرنے کےلئے کتنی محنت کرنی پڑی“ رپورٹر خاموش رہا‘ مارک سپٹز چند سیکنڈ رک کر بولا ”میں چار سال میں دس ہزار گھنٹے پانی میں رہا‘ میں نے ان چار برسوں میں ایک بھی چھٹی نہیں کی‘ میں کرسمس کے دن بھی سوئمنگ پول میں ہوتا تھا اور اپنا برتھ ڈے بھی تیر کر مناتا تھا‘ ان چار برسوں میں میرے والدین کا انتقال ہوا‘ میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا‘ میری گرل فرینڈز مجھے چھوڑ گئیں‘ میرا اکاﺅنٹ خالی ہو گیا‘ میرے کریڈٹ کارڈز بند ہو گئے‘ میری گاڑی میرا گھر بک گیا لیکن میں نے ایک بھی دن چھٹی نہیں کی‘ تم اگر ان دس ہزار گھنٹوں کو چار پر تقسیم کرو تو یہ اڑھائی ہزار گھنٹے سالانہ اور آٹھ گھنٹے روزانہ بنتے ہیں‘ میں اتنا عرصہ پانی میں رہنے کی وجہ سے ایسڈ ری فلکس ڈزیز کا شکار ہوگیا‘ میرے پورے جسم میں درد ہوتا ہے اور مجھے روزانہ فزیو تھراپی کرنا پڑتی ہے‘ میں اس بیماری اور دس ہزار گھنٹے کی پریکٹس کے بعد اپنی صرف 30 سیکنڈ کی کمی پوری کرنے کے قابل ہوا اور میں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سات گولڈ میڈل حاصل کر لیے لیکن تم کہتے ہو یہ میرا لکی ڈے ہے۔ میں روز پانی میں آٹھ گھنٹے پریکٹس کرتا تھا‘ تم روزانہ 10گھنٹے پریکٹس کر لو‘ میرا لکی ڈے تمہارا لکی ڈے بن جائے گا“ وہ اس کے بعد رکا اور پھر تاریخی فقرہ کہا‘ اس نے کہا ”انسان جتنی محنت کرتا جاتا ہے وہ اتنا خوش نصیب ہوتا جاتا ہے“۔ دنیا میں سپورٹس واحد شعبہ ہے جس میں قسمت کم اور مہارت زیادہ کام آتی ہے‘ کھیل نفسیات‘ کیمسٹری‘ فزکس اور ریاضی کا زبردست کمبی نیشن ہوتے ہیں اور آپ اس کمبی نیشن پر اسی وقت پورے اتر تے ہیں جب آپ پریکٹس کی انتہا کر دیتے ہیں‘ قسمت بھی بے شک آپ پر مہربان ہوتی ہے‘ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا لیکن کھلاڑی صرف قسمت سے پوری زندگی نہیں جیت سکتے‘ یہ چیمپیئن بھی نہیں بن سکتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ سچن ٹنڈولکر کی مثال لے لیجیے۔ سچن ٹنڈولکر کو کرکٹ کا دیوتا کہا جاتا ہے اور یہ غلط بھی نہیں‘ یہ کرکٹ کی تاریخ میں 100 سنچریاں بنانے والا پہلا کھلاڑی ہے‘ یہ تاریخ کا پہلا کھلاڑی ہے جس نے 664 انٹرنیشنل میچز کھیلے اور34 ہزار 3 سو 57 رنز بنائے‘ یہ ون ڈے انٹرنیشنل میں دس ہزار رنز بنانے والا پہلا کھلاڑی بھی تھا اور یہ دنیا میں تیز ترین رنز بنانے والا بیٹس مین بھی ‘ آپ سچن ٹنڈولکر کا اعتماد ملاحظہ کیجئے‘ آسٹریلیا کے بولر بریڈ ہوگ نے 2007ءمیں حیدر آباد میں سچن ٹنڈولکر کو آﺅٹ کر دیا۔ یہ بریڈ کی زندگی کی سب سے بڑی اچیومنٹ تھی‘ یہ بال لے کر سچن ٹنڈولکر کے پاس چلا گیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ”سر یہ میری زندگی کا سب سے بڑا موقع ہے‘ میں نے گاڈ آف کرکٹ کو آﺅٹ کر دیا‘ آپ پلیز مجھے اس بال پر آٹو گراف دے دیں“ سچن ٹنڈولکر نے گیند لی اور اس پر مار کر سے لکھ دیا ”دس ول نیور ہیپن اگین“ (تمہارے زندگی میں یہ موقع دوبارہ کبھی نہیں آئے گا) آپ سچن ٹنڈولکر کا اپنی ذات پر اعتماد دیکھیے‘ بریڈ ہوگ کا اس کے بعد سچن ٹنڈولکر سے 21 مرتبہ سامنا ہوا۔ ہوگ نے سچن کا غرور توڑنے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن بریڈ ہوگ دوبارہ اس کی وکٹ نہیں لے سکا‘ سچن ٹنڈولکر کی اس کامیابی کے پیچھے کیا گُر تھا‘ یہ ساڑھے پانچ فٹ کا لٹل ماسٹر تھا‘ یہ بچہ دکھائی دیتا تھا لیکن یہ اس کے باوجود تاریخ کا سب سے بڑا بیٹس مین بنا اور یہ سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے اور رنز بنانے والا کرکٹر بھی‘ آخر اس شخص کے پاس کون سا فارمولا‘ کون سا گُرتھا؟ یہ گُر سچن ٹنڈولکر نے 2013ءمیں اپنی زبان سے دنیا کو بتایا۔ اس کا کہنا تھا میں 1989ءمیں سولہ سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ میں آیا اور 2013ءمیں 200 ٹیسٹ میچ کھیل کر ریٹائر ہو گیا‘ میرے کیریئر کے 24 سال بنتے ہیں‘ ان 24برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں صبح
چھ بجے گراﺅنڈ نہ پہنچا ہوں اور میں نے 500 گیندیں فیس نہ کی ہوں‘ میں نے اپنے کیریئر کے 24 برسوں میں موبائل فون‘ آئینہ اور اپنے رشتے داروں کا منہ بعد میں دیکھا اور پانچ سو گیندیں پہلے کھیلیں‘ انٹرویو کرنے والے نے پوچھا ”آپ نے کبھی چھٹی نہیں کی“۔




سچن نے جواب دیا ”میں نے ایک بھی چھٹی نہیں کی“ پوچھنے والے نے پوچھا ”کرسمس‘ نیشنل ڈے‘ دیوالی

اور دسہرا آپ نے کبھی چھٹی نہیں کی“ سچن نے جواب دیا ”میں شادی کے دن اور سہاگ رات سے اگلی صبح بھی ٹھیک چھ بجے گراﺅنڈ میں تھا‘ میں نے زندگی میں میچز کے علاوہ صرف پریکٹس کے دوران 44لاکھ گیندیں کھیلی ہیں اور یہ وہ 44 لاکھ گیندیں ہیں جن کی وجہ سے لوگ مجھے گاڈ آف کرکٹ کہتے ہیں“ انٹرویو لینے والے نے پوچھا ”آپ سنچری یا ڈبل سنچری کرنے کے اگلے دن بھی پریکٹس کرتے تھے“۔ سچن ٹنڈولکر نے جواب دیا ” ہم نے دو اپریل 2011ءکو ورلڈ کپ جیتا تھا‘ میں ورلڈ کپ جیتنے سے اگلی صبح یعنی 3 اپریل کو بھی ٹھیک چھ بجے گراﺅنڈ میں تھا اور میں نے پانچ سو گیندیں کھیلنے کے بعد موبائل آن کیا تھا اور وزیراعظم من موہن سنگھ کی مبارک باد کی کال ریسیو کی تھی“ ۔آپ دیکھیے یہ پریکٹس اور خوفناک حد تک ڈسپلن تھا جس نے ساڑھے پانچ فٹ کے دھان پان سے لڑکے کو دنیا کا سب سے بڑا بیٹس مین بنا دیا‘ جس کے ریکارڈ کوئی توڑ سکا اور شاید ہی کوئی توڑ سکے گا۔ یہ صرف خوش قسمتی‘ ماں یا قوم کو دعائیں نہیں تھیں یہ اس شخص کا ڈسپلن اور کام سے لگن بھی تھی اور اس لگن نے اسے عزت اور شہرت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ ِیہی فلسفہ مذہب میں لاگو ہوتا ہے جتنی محنت اتنی کامیابی۔ اگر آخرت میں کامیاب ہونا ہے تو ہمیں مذہب پر مکمل عمل کرنا ہو گا بصورت دیگر نمائشی نام نمود سے دنیا کو تو بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ۔دائمی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔۔

Comments

Popular posts from this blog

Surah Al-Hajj with Audio

حُسن اخلاق : ایمانِ کامل کی علامت

بغداد کا انجام ایک سبق