Tasbi
تسبیح اور تعظیم
(( قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَانِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب التوحید، باب: قول اللّٰہ تعالیٰ: {وَنَضَعُ الْمَوٰزِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ} رقم: ۷۵۶۳۔
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:حَبِیْبَتَانِ: حَبِیْبَۃ کی تثنیہ ہے بمعنی دو محبوب چیزیں مراد ہے کہ ان دو کلموں کو کہنے والا اللہ کا پسندیدہ اور محبوب ہے۔
اسماء حسنیٰ میں سے رحمن کا لفظ اس لیے بولا گیا ہے کہ بندوں پر اس کی رحمت کی وسعت پر دلالت کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ قلیل عمل کا ثواب بھی بہت زیادہ عطا کرتے ہیں اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس اسم کے تحت اللہ تعالیٰ کی تحمید و تعظیم اور تنزیہہ بھی آجاتی ہے۔
خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ: خفت اور ثقل کے ساتھ ان کو اس لیے متصف کیا گیا ہے تاکہ عمل کی قلت اور ثواب کی کثرت پر دلالت کرسکیں اور لفظ خفیفتان میں اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کلمات کے الفاظ اور حروف خفیف اور خوش نما ہیں اور خفت سہولت پر دلالت کرتی ہے۔ زبان پر جاری ہونے کی سہولت کا مطلب یہ ہے کہ یہ کلمات اپنے حامل (ان کا ذکر کرنے والے) کو ثقیل چیز کی طرح تھکاتے نہیں نیز یہ بھی اشارہ ہے کہ نفس پر تمام ذمہ داریاں شاق اور ثقیل ہیں لیکن یہ کلمات آسان ہیں، اس لیے قیامت کے دن ترازو میں بہت وزنی ہوں گے۔
بعض سلف صالحین سے نیکی کے ثقیل اور برائی کے خفیف ہونے کے متعلق سوال ہوا تو جواب دیا کہ نیکی کی کڑواہٹ موجود ہوتی ہے اور مٹھاس غائب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ثقیل ہوجاتی ہے لہٰذا اس نیکی کا اس کا ثقل تجھے نیکی چھوڑنے پر نہ ابھارے، اس کے برعکس برائی کی مٹھاس موجود ہوتی ہے لیکن اس کی کڑواہٹ غائب ہوتی ہے جس کی بناء پر اس میں خفت پیدا ہوجاتی ہے چنانچہ اس برائی کی خفت تجھے اس کے ارتکاب پر نہ ابھارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ فِيْ یَوْمٍ مِئَۃَ مَرَّۃٍ حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلُ زَبَدِ الْبَحْرِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الدعوات، باب: فضل التسبیح، رقم: ۶۴۰۵۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ: اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے منزہ ہے چنانچہ اس کے شریک، بیوی، اولاد اور سب رذائل کی نفی لازم آتی ہے۔
(( أَلَا أُخْبِرُکَ بِأَحَبِّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ )) قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أَخْبِرْنِيْ بَأَحَّبِ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ، فَقَالَ: (( إِنَّ أَحَّبَّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الذکر، باب: فضل سبحان اللّٰہ وبحمدہ، رقم: ۲۷۳۲۔
( مثلاً: فرضی نمازوں کے بعد مسنون اذکار، اس وقت تلاوتِ قرآن سے افضل ہیں کیونکہ وہ اذکار اس خاص وقت میں ہی مأثور ہیں۔ واللہ اعلم)
فتح الباری ص ۲۰۶، ۲۰۸/۱۱، ص ۵۴۰، ۵۴۱/۱۳، شرح مسلم للنووی ص ۴۹، ۱۷۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: مبارک پوری رحمہ اللہ کی ’’تحفۃ الاحوذی: ۲/۴۲۰۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ أَحَّبَّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ یَّقُوْلَ الْعَبْدُ: سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکَ، وَإِنَّ أَبْغَضَ الْکَلَامِ أَنْ یَقُوْلَ الرَّجُلُ: اتَّقِ اللّٰہَ فَیَقُوْلُ: عَلَیْکَ نَفْسَکَ۔ ))
سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني، رقم: ۲۹۳۹۔ نسائی، عمل الیوم واللیلۃ (۴۸۸؍ ۸۴۹)، شعب الایمان (۱؍ ۳۵۹)
سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ: کا مطلب ہے: اے اللہ! میں تجھے ہر قسم کی برائی اور تمام نقائص سے پاک جانتا، مانتا ہوں۔ ان کلمات کا معنی بیان کرتے ہوئے یوں بھی کہا گیا ہے کہ: یہاں أُسَبِّحُکَ تَسْبِیْحًا مُلْتَبِسًا وَمُقْتَرِنًا بِحَمْدِکَ… کے الفاظ محذوف ہیں۔ ان الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے معنی یوں بنے گا:حاصل کلام یہ ہے کہ: یہاں پر منفی اور انکاری صفاتِ باری تعالیٰ کی نفی اور ثابت شدہ تعریفوں کا اثبات مراد ہے۔ اور: تَبَارَکَ اسْمُکَ: کا مطلب ہے:اس کلمہ کا معنی کرتے ہوئے یوں بھی کہا گیا ہے: تَعَاظَمَ ذاتُکَ: تیری ذاتِ اقدس بہت بڑی ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ: بہت بڑا ہونا جب اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے لیے ثابت ہوجائے تو پھر یہ اُس کی ذاتِ اقدس کے لیے زیادہ اولیٰ ہوگا۔ اس کی مثال اللہ عزوجل کا یہ فرمانِ گرامی ہے: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰیo} اپنے نہایت اعلیٰ و عظیم المرتبت رب کے نام کی تسبیح بیان کرو۔‘‘
وَتَعَالٰی جَدُّکَ: میں سے کلمہ ’’تَعَالیٰ‘‘ باب تَفَاعَلَ کے وزن پر ہے۔ جس کا معنی یوں ہوگا کہ: اے اللہ! بلندی اختیار کرنے میں دوسروں نے بھی تیرے ساتھ مقابلہ کیا، مگر تیری عظمت اور بزرگی سب سے بلند ہوگئی۔ مخلوقات میں سے کوئی بھی تیرے درجے اور مقام کو نہ پہنچ سکا۔ (جیسے کہ فرعون نے: أَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی… کا دعویٰ و اعلان تو کیا تھا مگر ظالم غرق ہوکر مرگیا)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اور لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ : کا مطلب ہے:ان کلمات کو زبان سے ادا کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ نفی والے کلمات کی عملی طور پر بھی نفی کرے اور یہ کہ جس بات کو اس نے بالقول اللہ عزوجل کے لیے ثابت کیا ہے۔ یعنی نفی کی ضد ثبوت کو تسلیم کیا ہے… اسے وہ عملاً بھی ثابت ہی مانے اور کرکے دکھائے۔ اس لیے کہ توحید خالص کا ہدف صرف زبان سے ہی اقرار نہیں بلکہ اس مبارک کلمہ کا معنی و مفہوم جس بات کا متقاضی ہے اسے عملاً حق ماننا ہے۔
Comments
Post a Comment
If you have any doubts,please let me know