اسلام میں بلی کی اہمیت




 ہمارے اسلامی معاشرے میں بلیوں کا مقام اور قدر ماہرین کے مطابق بلیوں کی اوسط عمر 13سے 17سال ہوتی ہے مگر اکثر بلیاں 20سال کی عمر تک پہنچ جاتی ہیں۔۔۔

بلیاں اسلام میں قابل احترام جانور ہیں اور انہیں بہترین پالتو جانور سمجھا جاتا ہے۔ ان کی صفائی ستھرائی کی تعریف کی گئی ہے، انہیں گھروں اور مساجد میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ثقافت میں بلیوں کی اہمیت ہے۔ اسلام میں بلیوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے، ان کی قدر کرنے اور پیار کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ پالتو بلی رکھنے سے آپ کے گھر میں فرشتے آتے ہیں۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود ایک بلی سے محبت کرتے تھے۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ معزّا (یا معزّا؛ عربی: معزة) ان کی پسندیدہ بلی تھی۔ البتہ حدیث میں اس خاص بلی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
بلی کے متعلق احادیث ذکر کی گٸ ہیں، کہ بلی اگر کھانے میں سے کچھ کھا جائے یا پانى پى جائے تو وہ پلید اور نجس نہیں ہو جاتا (مشکوۃ شریف، جلد اول، حدیث ۴۵۳)
ایک عورت نے حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو ہریسہ بھیجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھیں، اس عورت نے ہریسہ وہیں رکھ دیا، تو بلى آئى اور آکر اس میں سے کھا گئى، حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز کے بعد اسى جگہ سے ہریسہ کھایا جہاں سے بلى نے کھایا تھا اور فرمایا:بلا شبہ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے :یہ ( بلى ) پلید اور نجس نہیں، بلکہ یہ تو تم پر آنے جانے والیاں ہیں۔
حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بیان کرتى ہیں میں نے رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو بلى کے بچے ہوئے پانى سے وضؤ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں:کبشہ بنت کعب بن مالک جو ابو قتادہؓ کى بہو ہیں وہ بیان کرتى ہیں کہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کے وضؤ کے لیے پانى برتن میں ڈالا تو بلى آئى اور اس سے پینے لگى، تو انہوں نے اس کے لیے برتن ٹیڑھا کر دیا یہاں تک کہ اس نے پانى پى لیا،کبشہ بیان کرتى ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کى طرف دیکھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے :کیا تم تعجب کر رہى ہو؟ تو میں نے جواب دیا:جى ہاں، تو وہ کہنے لگے :نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :یہ نجس اور پلید نہیں، بلکہ یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والیاں ہیں ۔۔۔(سنن ابوداؤد، جلد اول، حدیث ۷۴)۔۔۔
بلیاں بظاہر ہمیں سوتی ہوئ نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں وہ " بین جہتی مخلوق " ہیں یعنی کہ وہ مخلوق جن کا ذہن سونے کے دوران مادی دنیا ( Physical world ) سے نکل کر روحانی دنیا ( Spiritual world ) میں چلا جاتا ہے جہاں پر وہ باقاعدگی سے ان مقامات کا دورہ کرتا ہے جہاں تک ہمارا ذہن نہیں جاسکتا کیونکہ علم روح انسانی (Meta Physics) کے مطابق دو طرح کی دنیا وجود رکھتی ہیں ، ایک " مادی دنیا " جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اور ایک "روحانی دنیا" جسے کہ ہم دیکھ نہیں سکتے بلکہ صرف محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ انسانی آنکھ صرف ایک محدود حد تک دیکھ سکتی جب کہ بلیاں " تابکاری شعائیں " ( Gamma rays ) سے لے کر " نشریاتی شعائیں " ( Broadcasting rays ) تک دیکھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اثرات ، روحیں ، شیاطین اور بہت کچھ نظر آجاتا ہے اور اسی لیۓ جس طرح سے کتے مادی دنیا میں ہماری نگرانی کرنے والے ہیں بلکل اسی طرح بلیاں روحانی دنیا میں ہماری محافظ ہیں اور اسی لیۓ قدیم مصری تہذیب میں بلیوں کو مقدس سمجھا جاتا تھا
کہتے ہیں کہ اِنسان نے بلی کو دس ہزار سال پہلے سدھایا یا پالتو بنایاتھا۔۔۔ بلی آج کے دور میں سب سے زیادہ پالتو جانوروں میں سے ایک ہے۔ ۔۔۔بلیوں کو پہلے پہل شاید اس وجہ سے سدھایا گیا کہ یہ چوہے کھاتی تھیں اور اکثر اوقات جہاں اناج محفوظ کیا جاتا ہےوہاں انہیں پالاجاتا تھا۔ بعد ازاں ان کو انسان دوست اور پالتو جانور کے طور پر بھی پالاجانے لگا۔۔۔
فقہا ء کا کہنا ہےگھر میں بلی پالی جا سکتی ہے،ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ بلی نہ ہی موذی جانور ہے اور نہ ہی نجس ہے،ہر شخص کو معلوم ہے اس میں کوئی نقصان والی بات نہیں،بلکہ بلی گھر میں رکھنا فائدہ مند ہے، یہ گھر میں پیدا ہونے والے کیڑے مکوڑے،اور چوہے وغیرہ کھا جاتی ہے۔۔۔
بلیوں کو قدیم دور کے بعد مشرق قریب میں عقیدت دی گئی،اور اسلام نے اس روایت کو اپنے بہترین انداز میں اپنا لیا، جو اس عقیدت سے بالکل ہٹ کر ہے جو دیگر قدیم مذاہب میں بلی کو دی گئی،کچھ مزاہب میں بلی کو ناپاک سمجھا جاتا ہے تو کچھ مذاہب میں اسے حلال جان کر کھایا بھی جا تا ہے جب کہ اسلام نےایک طرف ان کا گوشت کھانے سے منع کیا اور دوسری طرف ان کے ساتھ پیار و محبت اور حسن سلوک کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔۔۔
ایک صحابی کی کنیت ہی ابو ہریرہ (یعنی بلیوں والا) پڑگئی تھی ۔۔۔ آپ ؓکا اصل نام عبد الرحمن ہے کی کنیت ہے ابوہریرہ، کنیت رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک بلی تھی جس کو آپؓ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اسی لیے آپؓ کی کنیت ابوہریرہ پڑگئی۔ ایک دن ابو ہریرہؓ نے دیکھا کے گرمی کی شدت سے ایک بلی دیوار کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے، تو انہوں نے اسے اٹھا کر گرمی سے بچانے کے لیے اپنی آستین میں چھپا لیا۔۔۔
یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ گھر میں بلیاں پالی جا سکتی ہیں اگر کسی کو شوق ہے تو وہ ضرور پورا کرے مگر ان کے کھانے ،اور پینے کا پوراخیا ل رکھا جائے اور اسے کوئی تکلیف اور ایذا نہ دی جائے گھر میں بلی پالنے کا ایک بڑا فائدہ ہے ۔۔۔وہ یہ کہ بلیوں کو انسانی لمس بے حد پسند ہے اور انسان بھی اس سے محضوظ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بلی کے لمس میں اللہ نے ڈپریشن کے مرض کا علاج رکھا ہے۔ اس کے بالوں میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ انسانی جسم میں ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں چنانچہ پالتو بلی کو اپنے ساتھ لپٹا کر بٹھایا اور سلایا جائے،تو یہ عمل نہ صرف بلی کو خوش کرے گا بلکہ ا ڈپریشن سے بھی نجات دلائے گا،
دو بلیاں آپس میں کبھی بھی(میاؤں) کر کے بات نہیں کرتیں، جب بھی آپ کی بلی میاؤں کرے جان لیں کہ وہ آپ سے مخاطب ہے

Comments

Popular posts from this blog

Surah Al-Hajj with Audio

حُسن اخلاق : ایمانِ کامل کی علامت

Ahadees Sahih Bukhari