Great people who could not be beaten by failures
Great people who could not be beaten by failures
The story of a great character who did not give up in the face of the brutal slaps of circumstances.
There are failures in everyone's life. You never get the job you want, you never get the right reward for your hard work. But those who dream of success do not give up on failures, they continue to travel with new energy after exploring the possibilities in the midst of disappointments.
Their perseverance and perseverance ultimately lead them to the destination. There are many stories scattered around us that are full of courage, courage and perseverance. Here is a glimpse of the ups and downs of the life of a world famous and successful man, who did not let failures become his introduction. He made hard work his way of life and today the world takes his name with respect and love. ۔
When a disabled athlete becomes
This is the story of a child who was the victim of a school fire. It was said that he would not be able to survive after seeing his condition. His mother was given an answer by the doctor. There was a sudden outburst in the school. The fire had completely burned his lower torso. The doctor had given him a glimmer of hope and said that even if he survived, he would be disabled for the rest of his life.
But the brave boy did not want to die, nor did he want to live a life of disability. His emotions were full of energy and vigor and his lower body was absolutely unable to move. His slender, lifeless legs seemed to hang over his upper torso. At the same time he was discharged from the hospital and at home he was confined to a wheelchair but his heart was on his feet. Had a strong desire.
One day, exhausted, he dropped himself from the wheelchair and crawled on the grass with his hands, his lifeless legs dragging along with him. After much effort, he reached a fence and began to move, holding the fence in his hands. He was not walking but crawling.
Then he made it a habit. He was convinced that one day he would be able to walk without any support. As a result of his iron determination and full attention, he was able to stand up and then slowly began to limp. One day he also came that he could not only walk on his feet but also run.
First he started walking to school and then he started running away. The energy of determination continued to accompany him and he eventually formed a track team at the school.
Then in 1934, in New York City's famous Madison Square Garden, people saw this man winning the world's fastest race, who had no hope of survival. Yes, this brave man is known as Dr. Cunningham.
Glenn Cunningham's story is a living example of positive thinking and iron will that gives new energy to human beings who kill tomcats in the darkness of despair.
Glenn Cunningham's story is a living example of positive thinking and iron will that gives new energy to human beings who kill tomcats in the darkness of despair.
عظیم لوگ جنہیں ناکامیاں پچھاڑ نہ سکیں
حالات کے بے رحم تھپیڑوں کے سامنے ہار نہ ماننے والے عظیم کردار کی کہانی ۔
ہر شخص کی زندگی میں ناکامیاں آتی ہیں۔ کبھی اپنی مرضی کا کام نہیں ملتا تو کبھی سخت محنت کے باوجود اس کا مناسب صلہ نہیں ملتا۔ لیکن کامیابی کا خواب دیکھنے والے لوگ ناکامیوں کے آگے ہتھیا ر نہیں ڈالتے وہ مایوسیوں کے بیچ سے امکانات کے پہلو تلاشنے کے بعد نئی توانائی کے ساتھ سفر جاری رکھتے ہیں۔
ان کی مسلسل محنت اور مستقل مزاجی بالآخر انہیں منزل سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی کئی کہانیاں بکھری پڑی ہیں جو ہمت ،حوصلے اور جہدمسلسل سے عبارت ہیں۔ یہاں دنیا کے مشہور اور کامیاب انسان کی زندگی کے نشیب وفراز کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے، جنہوں نے ناکامیوں کو اپنا تعارف نہیں بننے دیا۔انہوں نے سخت محنت کو اپنا وطیرہ بنایا اور آج دنیا ان کا نام احترام اور محبت سے لیتی ہے۔
جب معذور ایتھلیٹ بنتا ہے
یہ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جو اسکول میں آتشزدگی کا شکار ہو گیا تھا۔اس کی حالت دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ یہ نہیں بچ سکے گا۔اس کی ماں کو ڈاکٹر کی طرف سے کوراجواب دے دیا گیا تھا۔اسکول میں اچانک بھڑک اٹھنے والی آگ سے اس کا زیریں دھڑ مکمل طور پر جھلس چکا تھا۔ ڈاکٹرنے مہین سی امید دلاتے ہوئے کہہ دیا تھا اگر یہ بچ بھی گیا تو ساری عمر کے لیے معذور ہو جائے گا۔
لیکن بہادر لڑکا مرنا چاہتا تھا ، نہ ہی معذوری کی زندگی جینا چاہتا تھا۔اس کے جذبات میں توانائی اور تموج تھا اور اس کے جسم کا نچلا حصہ ہلنے سے قطعی قاصر تھا ۔ اس کی پتلی اور بے جان ٹانگیں اس کے اوپری دھڑ کے ساتھ لٹکتی دکھائی دیتی تھیں۔اسی حالت میں وہ ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا اور گھر پر وہ ایک وہیل چیئر تک محدود ہو کر رہ گیا لیکن اس کے دل میں اپنے پاؤں پر چلنے کی شدید خواہش تھی۔
ایک دن تنگ آکر اس نے خودکو وہیل چیئر سے نیچے گرا دیا اور ہاتھوں کی مدد سے گھاس پر گھسٹنے لگا اور اس کی بے جان ٹانگیں اس کے ساتھ ساتھ گھسٹ رہی تھیں۔ کافی کوشش کے بعد وہ ایک جنگلے تک پہنچ گیا اور ہاتھوں سے جنگلا پکڑ کر آگے بڑھنے لگا۔ وہ چل نہیں رہا تھا بلکہ گھسٹ رہا تھا۔
پھر اس نے اپنی اس عادت کو معمول بنا لیا۔ اسے کامل یقین تھا کہ ایک دن وہ بغیر کسی سہارے کے اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہو جائے گا۔ اپنے آہنی عزم اور پوری توجہ کے نتیجے میں اس نے خود کو کھڑا ہونے کے قابل بنا لیا اور پھرآہستہ آہستہ لنگڑانے لگا۔ایک دن وہ بھی آیا کہ وہ اپنے پاؤں پر نا صرف یہ کہ چل رہا تھا بلکہ دوڑبھی سکتا تھا۔
پہلے اس نے چل کر اسکول جانا شروع کیا اور پھر بھاگ کر جانے لگا۔ عزم کی توانائی اس کا ساتھ دیتی رہی اور اس نے بالآخر اسکول میں ایک ٹریک ٹیم بنا لی۔
پھر 1934ء میں نیویارک شہر کے مشہور میڈسن اسکوائر گارڈن میں لوگوں نے اس شخص کو دنیا کی تیز ترین دوڑ جیتتے دیکھا، جس کے بچنے کی امید بھی نہیں تھی۔ جی ہاں یہ بہادر شخص ڈاکٹر کنگھم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔گلین کنگھم کی کہانی مثبت سوچ اور آہنی عزم کی ایک زندہ مثال ہے جو مایوسیوں کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے انسانوں کو نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔
Bestttttt
ReplyDelete