Great people who could not be beaten by failures
Great people who could not be beaten by failures
Go! You have no good ideas
This man too was subjected to the cruel slaps of circumstances. In 1919, he was employed by a newspaper where he was fired by the editor on the grounds that "he has no imagination, nor does he have any good ideas." In 1920, with the help of a friend, he founded a small cartoon company.
After a random start, he joined the Kansas City Film Company to make money. Then, after a while, he joined Lorix, who could not continue to work alone. The man merged his studio into the company, but the profits were so low that the employees' salaries could not be met. As a result, the studio went into debt and eventually went bankrupt. Failures did not overtake him. He opened a new studio in the Hollywood film industry in California and worked hard in the cartoon industry. At the same time, he made the cartoon 'Oswald the Lucky Rabbit'.
This character was considered the most successful example of the cartooning business at the time. At that time, he could earn only 20% from his films. It was hoped that things would get better, but once again he found himself broken when a producer took his role and the animation crew with him. The producer thought that he would have to work at only 20% while the new experience would make him rich.
While most people were packing their bags for the return, complaining of low wages, this enthusiastic man was planning to make a new and explosive series. In the world of cartoons, he is known as 'Mickey Mouse' and it mentions Walt Disney, the famous
entrepreneur, cartoonist, animator, voice actor and filmmaker of his time. When he started working on this series, he was called That this character will not succeed unless a terrifying rat scares the women watching TV.
He listened to them and continued his work. He presented the mouse (Mickey Mouse) in such a way that he did not need to scare women for popularity. Today, decades later, the story of Mickey Mouse continues and a large number of spectators are watching and listening to it.
He never let the failures of life overwhelm him. There is hardly an informed person today who has not heard of Disney. Seeing all this work from Disney reminds me of the editor who was fired from the newspaper because he did not have good ideas.
عظیم لوگ جنہیں ناکامیاں پچھاڑ نہ سکیں
جاؤ ! تمہارے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں
یہ شخص بھی حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں رہا۔ 1919ء میں یہ ایک اخبار میں ملازمت کرتا تھا جہاں سے اسے اس بنیاد پر ایڈیٹر نے نکال دیا کہ ’وہ پر تخیل ہے، نہ ہی اس کے پاس کوئی اچھے آئیڈیاز ہیں‘۔ 1920ء میں اس نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ایک کارٹون بنانے والی چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی۔
ایک بے ترتیب سی شروعات کے بعد اس نے پیسے کمانے کے لیے کینساس سٹی فلم کمپنی میں ملازمت کر لی۔ پھر کچھ عرصے بعد اس نے لورِکس جائن کرلیا جو اکیلے کام جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس شخص نے اپنا اسٹوڈیو اس ادارے میں ضم کر دیا مگر منافع اتنا کم تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسٹوڈیو قرضے میں ڈوب اور بالآخر اس کا دیوالہ نکل گیا۔ ناکامیاں اس شخص کو مگر پچھاڑ نہ سکیں۔اس نے کیلیفورنیا میں فلم انڈسٹر ی ہالی وُوڈ میں ایک نیا اسٹوڈیو کھول لیا اور کارٹون بنانے کی صنعت میں خوب جم کر کام کیا۔ اسی زمانے میں اس نے ’آس والڈ دی لکی ریبٹ‘ کارٹون بنایا ۔
یہ کرداراس وقت میں کارٹوننگ کے بزنس کی کامیاب ترین مثال سمجھا جاتا تھا۔ اس دورمیں یہ اپنی فلموں سے محض 20فیصد کما پاتا تھا۔ امید تھی کہ اب حالات بہتری کی جانب جائیں گے مگر ایک بار پھر اس نے خود کو شکستہ پایا جب ایک پروڈیوسر اس کا کردار اور اینی میشن کے عملے کو بھی سمجھا بجھا کر ساتھ لے گیا۔ اس کے پروڈیوسر کا خیال تھا کہ یہاں اسے محض بیس فی صد پر ہی کام کرنا پڑے گا جبکہ نیا تجربہ اسے دولت مند بنا دے گا۔
جب اکثر لوگ کم اجرت کی شکایت کرتے ہوئے واپسی کے لیے اپنے بیگ پیک کر رہے تھے تو یہ حوصلہ مند آدمی ایک نئی اور دھماکہ خیز سیریز بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ کارٹون کی دنیا میں اسے ’مکی ماؤس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ذکرہے اپنے عہد کے مشہور انٹر پرینیور،کارٹونسٹ،اینمیٹر،صداکار اور فلم ساز والٹ ڈزنی کا۔جب اس نے اس سیریز پر کام شروع کیا تو اسے کہا گیا کہ یہ کردار اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا جب تک ایک بڑا خوفناک چوہا ٹی وی دیکھنے والی خواتین کوخوفزدہ نہ کر دے۔
اس نے سنی ان سنی کر دی اور کام جاری رکھا ۔اس نے چوہے(مکی ماؤس) کو اس انداز میں پیش کیا کہ مقبولیت کے لیے اسے خواتین کو ڈرانے کی ذرا بھی ضرورت نہیں پڑی۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مکی ماؤس کی کہانی جاری ہے اور شائقین کی بڑی تعداد ٹکٹکی باندھے اسے سن اور دیکھ رہی ہے۔
اس شخص نے زندگی کی ناکامیوں کو خود پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ آج شاید ہی کوئی باخبر شخص ایسا ہو جس نے ڈزنی کے بارے میں نہ سنا ہو۔ ڈزنی کا یہ سب کام دیکھ کر وہ ایڈیٹر یاد آتا ہے جس نے اخبار کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا تھا کہ اس کے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں۔
Go! You have no good ideas
This man too was subjected to the cruel slaps of circumstances. In 1919, he was employed by a newspaper where he was fired by the editor on the grounds that "he has no imagination, nor does he have any good ideas." In 1920, with the help of a friend, he founded a small cartoon company.
After a random start, he joined the Kansas City Film Company to make money. Then, after a while, he joined Lorix, who could not continue to work alone. The man merged his studio into the company, but the profits were so low that the employees' salaries could not be met. As a result, the studio went into debt and eventually went bankrupt. Failures did not overtake him. He opened a new studio in the Hollywood film industry in California and worked hard in the cartoon industry. At the same time, he made the cartoon 'Oswald the Lucky Rabbit'.
This character was considered the most successful example of the cartooning business at the time. At that time, he could earn only 20% from his films. It was hoped that things would get better, but once again he found himself broken when a producer took his role and the animation crew with him. The producer thought that he would have to work at only 20% while the new experience would make him rich.
While most people were packing their bags for the return, complaining of low wages, this enthusiastic man was planning to make a new and explosive series. In the world of cartoons, he is known as 'Mickey Mouse' and it mentions Walt Disney, the famous
entrepreneur, cartoonist, animator, voice actor and filmmaker of his time. When he started working on this series, he was called That this character will not succeed unless a terrifying rat scares the women watching TV.
He listened to them and continued his work. He presented the mouse (Mickey Mouse) in such a way that he did not need to scare women for popularity. Today, decades later, the story of Mickey Mouse continues and a large number of spectators are watching and listening to it.
He never let the failures of life overwhelm him. There is hardly an informed person today who has not heard of Disney. Seeing all this work from Disney reminds me of the editor who was fired from the newspaper because he did not have good ideas.
عظیم لوگ جنہیں ناکامیاں پچھاڑ نہ سکیں
جاؤ ! تمہارے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں
یہ شخص بھی حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں رہا۔ 1919ء میں یہ ایک اخبار میں ملازمت کرتا تھا جہاں سے اسے اس بنیاد پر ایڈیٹر نے نکال دیا کہ ’وہ پر تخیل ہے، نہ ہی اس کے پاس کوئی اچھے آئیڈیاز ہیں‘۔ 1920ء میں اس نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ایک کارٹون بنانے والی چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی۔
ایک بے ترتیب سی شروعات کے بعد اس نے پیسے کمانے کے لیے کینساس سٹی فلم کمپنی میں ملازمت کر لی۔ پھر کچھ عرصے بعد اس نے لورِکس جائن کرلیا جو اکیلے کام جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس شخص نے اپنا اسٹوڈیو اس ادارے میں ضم کر دیا مگر منافع اتنا کم تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہو سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسٹوڈیو قرضے میں ڈوب اور بالآخر اس کا دیوالہ نکل گیا۔ ناکامیاں اس شخص کو مگر پچھاڑ نہ سکیں۔اس نے کیلیفورنیا میں فلم انڈسٹر ی ہالی وُوڈ میں ایک نیا اسٹوڈیو کھول لیا اور کارٹون بنانے کی صنعت میں خوب جم کر کام کیا۔ اسی زمانے میں اس نے ’آس والڈ دی لکی ریبٹ‘ کارٹون بنایا ۔
یہ کرداراس وقت میں کارٹوننگ کے بزنس کی کامیاب ترین مثال سمجھا جاتا تھا۔ اس دورمیں یہ اپنی فلموں سے محض 20فیصد کما پاتا تھا۔ امید تھی کہ اب حالات بہتری کی جانب جائیں گے مگر ایک بار پھر اس نے خود کو شکستہ پایا جب ایک پروڈیوسر اس کا کردار اور اینی میشن کے عملے کو بھی سمجھا بجھا کر ساتھ لے گیا۔ اس کے پروڈیوسر کا خیال تھا کہ یہاں اسے محض بیس فی صد پر ہی کام کرنا پڑے گا جبکہ نیا تجربہ اسے دولت مند بنا دے گا۔
جب اکثر لوگ کم اجرت کی شکایت کرتے ہوئے واپسی کے لیے اپنے بیگ پیک کر رہے تھے تو یہ حوصلہ مند آدمی ایک نئی اور دھماکہ خیز سیریز بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ کارٹون کی دنیا میں اسے ’مکی ماؤس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ذکرہے اپنے عہد کے مشہور انٹر پرینیور،کارٹونسٹ،اینمیٹر،صداکار اور فلم ساز والٹ ڈزنی کا۔جب اس نے اس سیریز پر کام شروع کیا تو اسے کہا گیا کہ یہ کردار اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا جب تک ایک بڑا خوفناک چوہا ٹی وی دیکھنے والی خواتین کوخوفزدہ نہ کر دے۔
اس نے سنی ان سنی کر دی اور کام جاری رکھا ۔اس نے چوہے(مکی ماؤس) کو اس انداز میں پیش کیا کہ مقبولیت کے لیے اسے خواتین کو ڈرانے کی ذرا بھی ضرورت نہیں پڑی۔ آج کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مکی ماؤس کی کہانی جاری ہے اور شائقین کی بڑی تعداد ٹکٹکی باندھے اسے سن اور دیکھ رہی ہے۔
اس شخص نے زندگی کی ناکامیوں کو خود پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ آج شاید ہی کوئی باخبر شخص ایسا ہو جس نے ڈزنی کے بارے میں نہ سنا ہو۔ ڈزنی کا یہ سب کام دیکھ کر وہ ایڈیٹر یاد آتا ہے جس نے اخبار کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا تھا کہ اس کے پاس اچھے آئیڈیاز نہیں ہیں۔
Motivational
ReplyDeleteStunning!
ReplyDelete